ختم ہو گئے ستم ، تمہیں خبر ہی نہیں
مٹ ہی تو گئے ہم ، تمہیں خبر ہی نہیں
اپنی ذات کی کھوج میں افلاک سے آگے تلک
بڑھتے چلے گئے قدم، تمہیں خبر ہی نہیں
بے لوث وفا کی داستاں ریاکار زمین پر
ہمیشہ ہوئی ہے رقم، تہیں خبر ہی نہیں
میکدے میں جاؤ تم، جام منہ سے لگاؤ تم
مٹ جائیں گے سارے غم، تمہیں خبر ہی نہیں
جو زندگی کا وبال ہے، بس ہوش کا اک جال ہے
انا کا سب ہے بھرم، تمہیں خبر ہی نہیں
کب لکھی ہے شارق نے سچ کی کوئی داستاں
بہک گیا ہوگا قلم، تمہیں خبر ہی نہیں