خمار ذات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
میں کائنات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
تمہاری بات کے چکر میں پھنس گیا ہوں میں
تمہاری بات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
حقیقتوں کے کسی دیس میں میں جاؤں گا
جمالیات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
میں اس کی ذات کی گہرائیوں میں اتروں گا
پھر اس کی ذات5 سے باہر نکل کے دیکھوں گا
میں اس کے ہاتھ کی الجھی لکیر میں بند ہوں
میں اس کے ہاتھ سے باہر نکل کے دیکھوں گا
سنا ہے ہجر کی لذت عجیب لذت ہے
ملن کی رات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
چھپا ہوا ہوں ابھی تک اسی کے لہجے میں
کبھی تو بات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
قدم قدم پہ فتوحات رقص میں ہونگی
جب اپنی مات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
بغیر فکر کے اب زندگی گزاروں گا
لوازمات سے باہر نکل کے دیکھوں گا
میں دل کی بات اسے برملا کہوں گا مرادؔ
تکلفات سے باہر نکل کے دیکھوں گا