خواب خواب ہی رہ گئے ہم ہر زخم پھر سہہ گئے چب چاپ سنتے ہی رہے لوگ اپنی اپنی کہہ گئے باقی رہا نہیں کوئی خواب سب آنسو بن کر بہہ گئے آگے بڑھ گئے ہمسفر ہم وہیں کے وہیں رہ گئے زبان کا قفل کنولؔ بےسود تھا چہرے سارا حال دل کہہ گئے