خواہش جیسے افریقہ کی بیٹیاں جنگ آزادی میں سر باندھے کفن
حلقئہ نور میں آگے بڑھتے ہوئے دھوپ کو چھیڑتے آبنوسی بدن
ان ہواؤں سے موسم بدلنے لگا، دھوپ میں پیار کی نرم چمکار ہے چبھن
پھر کبوتر کے جوڑوں کے دل میں چبھی تنکے چن چن کے لانے کی فطری چبھن
شہر و صحرا کی تقسیم ممکن نہیں، اک قوت ہے جس کے بہت روپ ہیں
ان پہاڑوں میں بھی پیار کا ظلم ہے، ان مشینوں میں بھی ظلم کا پیار پن
مرنے والے مصور کے تکیے تلے اک کاغذ ملا جس پہ یہ درج تھا
روشنی کے لباسوں میں لپٹا ہوا آئینہ خانے میں خوشبوؤں کا بدن
اونچے گرجا گھروں میں گھرے نوجواں راہبوں کے دلوں میں دبی خواپش
جیسے بیروت کی ساحلی ریت پر دھوپ کھاتی ہوئی لڑکیوں کے بدن