میری وفا کے دیپ وہ سر شام جلائے گا
خود روشنی کے بھنور میں الجھتا ہی جائیگا
پھر یونہی رات اسکی تھی سوچنے میں گزری
کہ صبح کا نیا سورج کون سا پیغام لائے گا
ستاروں کی جستجو میں وہ گھر سے نکل پڑا
کس کو تھی خبر کہ وہ ناکام آئے گا
ایسا صنم اسے چاھیے جو بکھرے نہ ٹوٹ کے
وہ دل کے نگار خانے میں ایسا بت سجائے گا
ھمکو بھی اپنے آپ سے شکایت سی ھو گئی
حال دل جو اسے سنایا تو وہ روٹھ جائے گا
پھر وہ زمزمے میں مبتلا یوں شام تک رھا
گزرے گا جب گلی سے میرا گھر بھی آئیگا