خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا
ورنہ خوددار مسافر ہوں گزر جاؤں گا
آندھیوں کا مجھے کیا خوف میں پتھر ٹھہرا
ریت کا ڈھیر نہیں ہوں جو بکھر جاؤں گا
زندگی اپنی کتابوں میں چھپا لے ورنہ
تیرے اوراق کے مانند بکھر جاؤں گا
میں ہوں اب تیرے خیالات کا اک عکس جمیل
آئینہ خانے سے نکلا تو کدھر جاؤں گا
مجھ کو حالات میں الجھا ہوا رہنے دے یوں ہی
میں تری زلف نہیں ہوں جو سنور جاؤں گا
تیز رفتار سہی لاکھ مرا عزم سفر
وقت آواز جو دے گا تو ٹھہر جاؤں گا
دم نہ لینے کی قسم کھائی ہے میں نے رزمیؔ
مجھ کو منزل بھی پکارے تو گزر جاؤں گا