خود کو بیج دیتے ہیں
Poet: اخلاق احمد خان By: Akhlaq Ahmed Khan, Karachiروپے ، منصب کے ، بدلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ لوگ کتنا ، سستے میں خود کو بیج دیتے ہیں
شہرِ حَوس میں اِفلاس کا یہ عالم ہے
لوگ ٹکے ٹکے ، میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ اُصول بیچ کر خرید لاتے ہیں خواہشیں
کچھ خوف کے ، غلبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
نام و نمود کے پردے پر دِکھنے کے لۓ
لوگ ، پردے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
ہم یہاں راہ تکتے ہیں منزلوں پر
اور مسافر ، رستے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کبھی عشق ، کبھی رزق ، کبھی مجبوری کے نام پر
ہم کس کس ، دھوکے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
جن دیواروں تلے دب کر مرے ہیں ، چلو آج
اُسی احساس کے ملبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ نۓ کی چاہت نے قیمت ہی گھٹاٸی ہے
چلو کہ دام ، پچھلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
رہ گۓ تنہا تو کوٸی مفت میں نہ لے گا
ابھی سلسلہ ہے ، سلسلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
اعزازِ مسلم نے ہمیں انمول کیا اور ہم
بنٹ کر ، فرقے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
”اخلاق“ یہ بے مول دنیا اُسے کب خرید سکتی ہے
جو گِر کر ، سجدے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
وہ بہن بھی تو زمانے میں ہے اب نبھاتی ہیں
ماں کی الفت کا کوئی بھی نہیں ہے اب بدل
پر بہن بھی تو محبت میں ہے ایثار نبھاتی ہیں
گھر کے آنگن میں جو پھیلے ہیں یہ الفت کے ضیا
یہ بہن ہی تو ہیں جو گھر میں یہ انوار نبھاتی ہیں
ماں کے جانے کے بعد گھر جو ہے اک اجڑا سا نگر
وہ بہن ہی تو ہیں جو گھر کو ہے گلزار نبھاتی ہیں
دکھ میں بھائی کے جو ہوتی ہیں ہمیشہ ہی شریک
وہ بہن ہی تو ہیں جو الفت میں ہے غمخوار نبھاتی ہیں
ماں کی صورت ہی نظر آتی ہے بہنوں میں ہمیں
جب وہ الفت سے ہمیں پیار سے سرشار نبھاتی ہیں
مظہرؔ ان بہنوں کی عظمت کا قصیدہ کیا لکھیں
یہ تو دنیا میں محبت کا ہی وقار نبھاتی ہیں
زماں میں قدر دے اردو زباں کو تو
زباں سیکھے تو انگریزی بھولے ا پنی
عیاں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
تو سیکھ دوسری ضرورت تک ہو ایسے کہ
مہاں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
زباں غیر کی ہے کیوں اہمیت بتا مجھ کو
سماں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
سنہرے لفظ اس کے خوب بناوٹ بھی
زماں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
بھولے کیوں خاکؔ طیبؔ ہم زباں ا پنی
جہاں میں قدر دے اُردو ز باں کو تو






