خود کو تیرے لئے انجان کیا ہو جیسے
خود ہی اپنا کوئی نقصان کیا ہو جیسے
تمہارے شہر کے در وا تھے ہم آزاد بھی تھے
ہم نہ آئے آزادی کو اسیر زندان کیا ہو جیسے
ہم نے تمہیں دیکھ کر اپنی نگاہیں چرالیں
اور پھر دل میں بپا طوفان کیا ہو جیسے
اپنے دل کی زباں ہونٹوں تلے دبا رکھی
اپنے جذبات کو قربان کیا ہو جیسے
عظمٰی تمہارے روبرو میرے تخیل نے
جنون و شوق کو مہمان کیا ہو جیسے