خود کو رُلانا چاہ رہے ہیں
اُس سے بچھڑ جانا چاہ رہے ہیں
دشت کو چھوڑ کر اب تو
ہم بھی گھر بنانا چاہ رہے ہیں
سادگی نہیں تو اور کیا کہیے
رتجگا دے کر سُلانا چاہ رہے ہیں
ہر چیز کا مِل جانا ضروری نہیں ہوتا
دل کو یہ بات سمجھانا چاہ رہے ہیں
یاد آنے سے ہی دل دھڑک سا جاتا ہے
ورنہ تو اُسے ہم بھلانا چاہ رہے ہیں
عجب بے چینی و بے قراری ہے
خود سے جو آنکھ مِلانا چاہ رہے ہیں
ایک ہی تو شخص مانگا ہے اے خدا
ہم کونسا تجھ سے زمانہ چاہ رہے ہیں
آنسو نکل آتے ہیں آنکھوں سے سُہیل
ورنہ تو ہم مسکرانا چاہ رہے ہیں