خوشی کے راگ بکھیرے جہاں جہاں پہنچے
Poet: dr.zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanہوا کے دوش پہ چلتے رواں دواں پہنچے
خوشی کے راگ بکھیرے جہاں جہاں پہنچے
ہر ایک سمت کھلاتے رہے محبتوں کے کنول
جہاں سے گزرے ، جہاں بھی یہ کارواں پہنچے
نہ مڑ کے دیکھا کبھی دور ساحلوں کی طرف
سمندروں میں بھنور کے جو درمیاں پہنچے
بہت کٹھن ہے تری روح میں اتر جانا
وہاں تو صرف تریے دل کے رازداں پہنچے
فلک پہ تاروں کی چاہت میں چل دیے لیکن
کچھ اور دیکھا نظارہ جو ہم وہاں پہنچے
ہمارا ملنا مقدر میں ہی نہیں شاید
گئے تمھاری طرف اور تم یہاں پہنچے
ابھی تو عشق کا باقی ہے امتحاں زاہد
قدم تمھارے ابھی دار تک کہاں پہنچے
(تصیح شدہ اور اصل مسودے کے مطابق )
More General Poetry






