گھٹن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے
بات کرتے کرتے ہم
اکثر رک جاتے ہیں
نہ جانے کوئی کیا سوچے
ہماری ذات میں کیا کھوجے
کہیں کچھ ایسا نہ پا لے
جو ہم چھپانا چاہتے ہیں
کب سے مٹانا چاہتے ہیں
زخم چند رشتوں کے
جو بنا مانگے مل جاتے ہیں
زخم جو ہوں ناسور مگر
ظاہراً سل جاتے ہیں
مرہم سے محروم مگر
دیکھنے میں معدوم مگر
کانچ سے چبھتے ہیں اکثر
روح کو جو بیمار کریں
زندگی کو لاچار کرئی
ہم کچھ کہہ ہی نہیں پاتے
کہ زخموں کو کھرچنے سے
مزید درد ہوتا ہے
درد میں مبتلا ہوتا ہے
جو بھی ہمدرد ہوتا ہے
مگر ہماری خاموشی کو
مگر ہماری خود فراموشی کو
ہمدروں نے غرور سمجھا
ہمیں خود سے دور سمجھا
گٹھن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے