خُوشی میں بھی غَمی کو یاد کرتا ہے
ابھی بھی دِل تُجھی کو یاد کرتا ہے
وہ چندا آج بھی جلتا ہے تُجھسے جب
تُمھاری چاندنی کو یاد کرتا ہے
مُجھے ڈر ہے کے کافِر دِل نا ہو جاۓ
نمازوں میں تُجھی کو یاد کرتا ہے
بُجھا سا وہ ترا پروانا اے شمع
تُمھاری روشنی کو یاد کرتا ہے
ہمیشہ بُھول کر نیکی مُنافِق یار
محافل میں بَدی کو یاد کرتا ہے
اے گاؤں والو مجُھکو اِتنا بَتلاؤ
کبھی وه بھی دُکھی کو یاد کرتا هے
مسلماں نام کے ہیں بچ گۓ سارے
نا کوئ بندگی کو یاد کرتا ہے
جِسے ہے شوق باقرؔ شعر پڑھنے کا
وہ تیری شاعری کو یاد کرتا ہے