خیال سے خیال ٹکر کھاتے ہیں
خوابوں کے محل اجڑ جاتے ہیں
خدا کی خدائی دیکھ کر بھی اکثر
پوجے تو یہاں پتھر جاتے ہیں
کس کس کی مانگ قبول ہوئی؟
درگاہوں پہ روز لنگر جاتے ہیں
لوگ اپنی حسرتوں سے یوں ہی
لڑکر بھی پھر کدھر جاتے ہیں
سکوں کے خاطر سکوں ہی کھو کر
بھٹکتے بھٹکتے لوگ مر جاتے ہیں
تمہاری منزل تم ہی چن لو
ہم تو سنتوشؔ اِدھر جاتے ہیں