اس حقیقت تک پہنچنا ہے بہ فیضانِ خیال
آگہی کے کتنے در رکھتا ہے ایوانِ خیال
علم کے گہرے سمندر میں اترلے زیست پھر
خود بخود کھل جائیں گے کتنے دبستانِ خیال
مدتوں ادراک سرگرداں رہا اس کھوج میں
کس کلیدِ علم سے کھلتا ہے زندانِ خیال
ڈوب جاتے ہیں کبھی روشن ستارےفکر کے
چھوٹ جاتا ہے کبھی ہاتھوں سے دامانَ خیال
سرحدِ ادراک سے آگے بھی ہیں کتنے مقام
کس طرف جاتے ہیں دیکھیں اب غزالانِ خیال
زندگی آماجگاہِ نغمہ و آہنگ ہو
آؤ ہم مل کر سجالیں پھر گلستانِ خیال
دیکھنا یامین کیا اپنے جلو میں لائے ہیں
فکر عرفانِ تخیل علم رضوانِ خیال