ضبط کے آسیب کا سایہ ہُوا
دردِ دل نے ہے غضب ڈھایا ہُوا
کھو گیا معصوم سا اک حرف تھا
ذہن کے دالان میں آیا ہُوا
تشنگی در تشنگی در تشنگی
شائقِ صحرا ہے گھبرایا ہُوا
دھڑکنیں خاموش، پاگل دل کی ہیں
بس خرد کا شور ہے چھایا ہُوا
آسمانِ دل پہ عاشی عشق کے
چاند نے ہے نُور پھیلایا ہُوا