خاہشوں کے پیچھے ہوا ہوں بدحواس
دیکھ کر پانیوں کو بجھتی نہیں پیاس
کوئی انتہا تو ہو مری جستجو کی
مسافتوں کی کمی کرتی ہے مجھے اداس
نہ ہو بے قراری مزہ کیا جینے میں
سکوں کی کوئی دوا آتی نہیں ہے راس
ہے مسکن میرا یہ زمیں یہ آسماں
اک میرا گماں ہے اور دوسرا قیاس
ہاتھ خالی ہیں اس لیے چلتے ہیں
شکم سیر ی سے بنے تھوڑےخدا شناس