درد اور زخم کے انٰبار لیے پھرتے ہیں
اور بازاروں کے بازار لیے پھرتے ہیں
لوگ مقتل سے بھی لوٹ آۓ ہیں غازی بن کر
ہم فقط جرأت اظہار لیے پھرتے ہیں
ٹکڑیوں میں بٹے پھرتے ہیں قبیلے والے
سب الگ قافلہ سالار لیے پھرتے ہیں
ہے کہاں وہ جسے گھر کہتے ہیں ماں کہتے ہیں
اب تو کاندھے در و دیوار لیے پھرتے ہیں
ہے کسی دست محبت میں کوٸی سرخ انار
مدتوں سے دل بیمار لیے پھرتے ہیں
وہ گلے کٹ گۓ پہنانا تھے جن کو راہی
آپ کس شوق میں یہ ہار لیے پھرتے ہیں