درد دل سے جُدا نہیں ہوتا
عشق ورنہ بُرا نہیں ہوتا
دل کی مجبوریاں ارے توبہ
زخم کوئی کشا نہیں ہوتا
اِس قدر بڑھ گئی ہے مایوسی
دست دستِ دعا نہیں ہوتا
اُس پہ الزام ِ بے وفائی کیوں
کیا مقدّر لکھا نہیں ہوتا
چاند اُس کا میرے خیالوں کی
چاندنی سے جُدا نہیں ہوتا
خواب ہوتے نہیں مگر پورے
ورنہ خوابوں میں کیا نہیں ہوتا
کھڑکیاں روز مجھ پہ کھلتیں ہیں
کوئی دروازہ وا نہیں ہوتا
رہنمائی وہ آپ کرتا ہے
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اے دل ِ ناصبور چپ ہو جا
مجھ سے اُن کا گلہ نہیں ہوتا
دل کو ہوتی ہے راہ دل سے وسیم
ہر کوئی با وفا نہیں ہوتا