خیالات کے سمندر میں جب غوطے لگاتا ہوں
کوئی نیا نقص اپنی ذات سے نکال لاتا ہوں
آپ ہی کے دکھوں کی عنایت ہے کہ
میں نماز کی رکعتیں بھول جاتا ہوں
زندگی میں جب بھی برا وقت آیا
صرف خود ہی کو اپنے ساتھ پاتا ہوں
جو مجھ بےضرر کو منظر سے ہٹانے کے ہیں قائل
ان لوگوں کی حسرتیں دیکھ کے مسکراتا ہوں
غریب نے زمیں پہ کھانا پڑا دیکھ کر کہا
میں تو اپنے بچوں کو بھوکا سلاتا ہوں
ظلم کے خلاف چنگاری شعلہ بن کے ابھرے گی
حذیفہ! یہی سوچ کے قلم ہر بار اٹھاتا ہوں