صبح کے مسافر سر شام سے نکلے
ازل سے ہے اسی کام سے. نکلے
آغاز سفر مے تو سالار سخن تھے
پہنچے جو منزل پہ انجام سے نکلے
کہ اب خودی سے نفرت ہونے لگی
داغ اتنے مرے نام سے نکلے
پابند گل تھے تو کھلنے کی تھی تمنا
جو کھلے تو نشہ بن کے جام سے نکلے
کل جو تھے رضا مسجود ملائک
آج تیرے دامن کے دریچہ عام سے نکلے