عجب ستم ظریفی ہے خود ذخم لگائیں ہیں
نمک کا مساج کر کے ہائے ہائے چِِلایں ہیں
جتنے زیادہ لوگ یہاں اُتنی زیادہ رائیں دیکھیں
نہ جانے کیا مقصد ہے ڈھو نڈ تی کچھ نگائیں ہیں
ہر طرف ستم دیکھا جفا دیکھی سزا دیکھی
جہاں سکوں میسر تھا فقط ماں کی بائیں ہیں
جہاں مال و زر نظر آئے لوگ گیھر لیتے ہیں باہوں میں
پتہ چلتا نہیں پھر کون دائیں ہیں کون بائیں ہیں
پہلے دیکھا کرتے تھے محبت میں تڑپتے لوگ
آج تو ہوس و لالچ میں لوگ بھرتے آہیں ہیں
عجب رسم جہاں دیکھی یہی دستور دنیا ہے
میت کو اُتار کے بھائی مل کر نان کھائیں ہیں
حیران ہوں میں کنولؔ کیسے ؟ کتنے بدل گئے ہیں لوگ
لاشوں کے ڈھیروں پر کھڑے مال و زر چائیں ہیں