دست طلب کے لئے سوال کر رہی ہوں میں
اس درد کے ہاتھوں پستیوں میں گر رہی ہوں میں
عالم دیوانگی کا مت پوچھ مجھ دیوانی سے کوئی
وحشت جنوں میں حدوں سے گزر رہی ہوں میں
عشق محبت پاس وفا گئے وقتوں کی ہیں سب کہانیاں
جدید دور کے تقاضے پورے کر رہی ہوں میں
منقطع ہوگیا جب سے ایک تعلق سلسلاسی سا درمیاں
نئے سرے سے دل کو دھڑکنا سکھا رہی ہوں میں
محفلوں میں ملتے تھے جن سے پرتپاک کبھی
خلوت میں ان سے نظریں چرا رہی ہوں میں
راکھ ہوتے جذبوں سے دیر تلک دھواں اٹھتا رہا
کچھ اس طرح شوریدہ جذبوں کو جلا رہی ہوں میں
نفسا نفسی ہے ہر سمت اور الفت جہاں میں ناپید
ملی جو آج محبت تو اب وفا کو کھوج رہی ہوں میں
محبت کروں بھی تو کیسے اور غم بھی ہیں فرح جی کا روگ
فکر معاش سے ہی فرصت کہاں پا رہی ہوں میں