دسمبر جا رہا ہے
بنا برسے
دسمبر جا رہا ہے
دسمبر سرد بھی ہے خشک بھی ہے
کیوں بادل اس دفعہ برسا نہیں ہے
نمی ماحول میں گرچہ رچی ہے
مگر بادل کے جھرنے خشک کیوں ہیں
اگرچہ پانی برسایا بہت ہے
مگر یہ پانی بادل کا نہیں ہے
نم آنکھوں سے یہ برسایا گیا ہے
بہت آنکھوں کو ترسایا گیا ہے
ہوئے حالات کچھ یوں ناگہانی
دِلوں کو ایسے تڑپایا گیا ہے
برسنا بھول بیٹھا ابرِ رحمت
ہوئی آنکھوں سے پانی کی روانی
رلا کر سالِ چودہ جارہا ہے
کئی گلشن جلا کر جا رہا ہے
دسمبر جا رہا ہے
بنا برسے
دسمبر جا رہا ہے