دشت جنوں میں درد کے درمان سو گئے
اتنا جگے کہ ، زیست کے امکان سو گئے
چنتے رہے تھے رات بھر مژگاں سے غم کے پھول
صبح ہوئی تو آنکھ میں ہجران سو گئے
ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ہوئی
لیکن تھی وہ گھڑی کہ جب ارمان سو گئے
کس درجہ رائیگاں ہے میرے شوق کا سفر
منزل جگی تو قدموں کے نشان سو گئے
کچھ تم نے بھی پلائی ہمیں ہوش کی شراب
کچھ ہم بھی تھک گئےسو میری جان، سو گئے
خوابوں میں جاگتے ہیں میرے آج بھی وہ لوگ
جو کر کے مجھ پہ, نیند کو قربان, سو گئے