دلِ بیمار کو سب دیکھنے آئے
جنہیں آنا تھا وہ کب دیکھنے آئے
حقارت سے مجھے دیکھا تھا جس نے
اسے کہنا مجھے اب دیکھنے آئے
اسے میں بھی سمندر کا لقب دوں
میرے سوکھے ہوئے لب دیکھنے آئے
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ٹکڑے
کوئی آنکھوں میں یارب دیکھنے آئے
بلایا تو بہت چینخوں نے لیکن
کھلی اب نیند سو اب دیکھنے آئے