دل آزردہ میں اک تمنا بیدار ہوئی
زخم ہرے ہو گئے جیسے بہار ہوئی
یاد آ گئی وہ نکہت گل یک بار
حالت دل آج بے اختیار ہوئی
خشک تھے یہ چشمے رو رو کر
جانے پھر کیسے آنکھ اشکبار ہوئی
اب وفا کا صلہ وفا سے نہیں ملتا
لگتا ہے خلوص سے دنیا بیزار ہوئی
سوچ ہاتھوں سے پتھر میں منتقل ہوئی
تو صناعی کسی کی شہکار ہوئی
ڈوب گیا سورج ساگر کے سینے میں
ستاروں کے پہلو سے شب نمودار ہوئی