شب نیم بیٹھک سجا ئے بیٹھا ہے
کہ دل دور مستی میں آئے بیٹھا ہے
حیات ابدی کا داعوا کر کے رضا
روح ارضی گھبرائے بیٹھا ہے
بو آ رہی ہے. سانس جلنے. کی
دل بلبل. جلائے بیٹھا ہے
پتھروں کی لب کشائی کا شوق رکھ
سخت لہجہ آئینہ زخمائے بیٹھا ہے
انسان آرزو میں عجیب فطرت ہے
دیوانہ ہے جو بہانا بنائے بیٹھا ہے
عشق اپنی دسترس پہ رضا
یادوں کا مرقد کھودائے بیٹھا ہے