دل سے نکل رہی ہے ہو گا اثر دعا کا
رکھتا نہیں ہوں گرچہ کوئی ہنر نوا کا
مجھ سے نبھے رفاقت کہ ہوں غیر سے مراسم
ہوتا ہے دیکھیے اب رخ کس طرف ہوا کا
وہ سفر کے وقت تیری آنکھوں کا بھیگ جانا
کس درجہ خامشی سے اظہار تھا وفا کا
اہل وفا ہی ٹھہرے مجرم تری نظر میں
اور فیصلہ بھی تیرے ہاتھوں میں ہے سزا کا
مرے در گزر نے آخر پگھلا دیا ہے پتھر
وہی دوست بن گیا جو دشمن تھا انتہا کا
پوجا تو خو اہشوں کی سبھی کر رہے ہیں زاہد
ہونٹوں پہ نام ان کے رہتا ہے بس خدا کا