دل مجبور باتوں سے بہل جاتا تو کیا ہوتا
وہی ہوتا جو ہونے کا خدا نے لکھ دیا ہوتا
مرے ساقی ترے اس حسن کی پیتا اگر نہ مئے
نفس کے آبگینے میں خیالِ کبریا ہو تا
نکل جاتی عناصر کے سلاسل سے جو اپنی جاں
مریضِ عشق ہوں آخر فنا ہو کر بقا ہو تا
مجھے گر یہ خبر پوتی تغافل آشنا ہو تم
عروجِ نشنگی میں غم کو پینے کا مزا ہوتا
خرد دیکھے جو مسجد میں جنوں دیکھے وہی دل میں
بھلا اس کشمکش میں کب خدا سا راز وا ہوتا
مری حسرت جو مجھ کو کچھ قریبِ ‘لا مکاں‘ کرتی
مرا اٹھنا عبادت اور مرا جھکنا دعا ہو تا
سفر پہ آسمانوں کے سواری میں خیالوں کی
کہاں تک جا سکا ہوتا، کہاں تک نا ر سہ ہوتا
زمینِ حضرتِ غالب نہیں ملتی جو لفظوں کو
کہاں جا کر بیاں کرتا، جو احسن میں بپا ہوتا