دلِ مضطر کی کہانی کا بیاں کیسے کروں
شام کی بکھری اداسی کا بیاں کیسے کروں
طوفاں لازم یے کہ جب خامشی گھیرا کر لے
دلِ رنجور کی چپ کو میں زباں کیسے کروں
گیسو الجھے ہیں ، پریشانیاں ہیں آنکھوں میں
تیری ناساز طبیعت کو نہاں کیسے کروں
ثا قبِ فرش نہ بن ، جا کے چمک گردوں پہ
ثا قبِ عرش کی گردش کا بیاں کیسے کروں
تیرے چہرے کی چمک کیسے تجھے دکھلاوں
گزرے لمحات کی خوشیوں کو جواں کیسے کروں
کر توکل ، تو آسان ہے ہر چیز اے عزیر
اتنی سی بات کو مشہورِ جہاں کیسے کروں