دل میں ہی جو رہتا ہو، تو مل نہ سکا اُس سے
نماز ہی نہیں سیکھی، تو سیکھا ہی کیا تم نے
اندازِ محبت کا، یہ روپ کبھی دیکھا؟
وہ بات سمجھ بیٹھے، کہنا نہ پڑا اُن سے
لگایا ہو اگر اپنا, ذرا سا وقت فرصت میں
جواب آتے تجھے بھی قیام و حال و رُخصت میں
وہ جن کی آنکھ کی ٹھنڈک کو تو نے چھین لیا نادر
ابھی بھی غم زدہ ہیں وہ، تیرے حال و مقدر سے