دل کوئی سہارا اب لے کر شرمندئہ احساں کیا ہوگا
اب درد ہی درماں ہے اپنا اب درد کا درماں کیا ہوگا
ہوجاتی ہے شامِ غم روشن اب میرے جگر کے داغوں سے
یہ انجمِ تاباں کیا ہوں گے یہ ماہِ درخشاں کیا ہوگا
ہوتا ہے ستم جب مجھ پہ کوئی خود عفوِ ستم کردیتا ہوں
وہ اپنی جفائے ناحق پر تا حشر پشیماں کیا ہوگا
اک بار تو ٹکرا کر دیکھو کشتی کو بھیانک موجوں سے
یوں راحتِ ساحل کے خوگر اندازئہ طوفاں کیا ہوگا
مسموم فضائے گلشن ہے پھولوں کا دریدہ دامن ہے
اس سے تو قفس ہی بہتر ہے یہ صحنِ گلستاں کیا ہوگا
ہر شاخِ چمن ہے افسردہ ہر پھول کا چہرہ پژمردہ
آغاز ہی جب ایسا ہے تو پھر انجامِ بہاراں کیا ہوگا
اے اہلِ طرب افسانئہ غم کہتا ہے غزل کے پردے میں
اک غم کا سراپا ہے اخترؔ بیچارہ غزل خواں کیا ہوگا