دل کی آواز پہ بیعت بھی تو ہو سکتی ہے
تم اگر چاہو محبت بھی تو ہو سکتی ہے
میں جسے سمجھا ہوں آوارہ ہوا کی دستک
تیرے آنے کی بشارت بھی تو ہو سکتی ہے
زندگی تیرے تصور سے ہی مشروط نہیں
تیری یادوں سے ہلاکت بھی تو ہو سکتی ہے
آخری بار تجھے دیکھنا حسرت ہی نہیں
مرنے والے کی ضرورت بھی تو ہو سکتی ہے
کب ضروری ہے کہ ہم قیس کی سنت پہ چلیں
مذہب عشق میں بدعت بھی تو ہو سکتی ہے
اس لئے دیکھتا رہتا ہوں مسلسل تجھ کو
آنکھ محروم بصارت بھی تو ہو سکتی ہے
لفظ شعروں میں جو ڈھلتے نہیں تحسینؔ مرے
سوچ کے رزق میں قلت بھی تو ہو سکتی ہے