دل کی بستی کے سنورنے کا تھا سامان کیا
اپنے ہاتھوں سے یوں خود اپنا ہی نقصان کیا
ھم کو معلوم تھا وہ خود بھی بہک جائے گا
اس نے دو جام پلا کے تھا بڑا احسان کیا
رات کے پہلو میں سسکتی رہیں امیدیں میری
اسکے وعدے پہ بھی ھم نے تھا بڑا مان کیا
کچھ حالات کی مجبوری پہ تھے رنجیدہ ھوئے
اور کچھ مقدر نے بھی ھم کو تھا پریشان کیا
ٹوٹ کر جڑنا اور پھر بکھرنا اک عادت سی بنی
یوں ھر اک مشکل کو پھر موت نے تھا آسان کیا