دل کی یہ خواہش تھی کہ چاہے جائیں ہم
یہ کب چاہ تھا کہ زندہ دفنائیں جائیں ہم
اب کی بار کچھ ایسے بھٹکے ہیں منزل سے
کس کو خبر کہ اس بار کہاں پائیں جائیں ہم
میرے دشمن لاکھ نفرتیں بھریں ذہنوں میں
رضائے الہی سے سب کے دلوں میں سمائے جائیں ہم
بڑے دکھ دیے ہیں سستی شہرت کے پجاریوں نے
فراخ دل ہیں اتنے کے مسکرائے جائیں ہم
ہے انکساری اپنی فطرت میں شامل اصغر
اسی لیے تو ہر دلعزیز کہلائے جائیں ہم