دن کو دیپ جلا رکھا ہے
یہ کیا حال بنا رکھا ہے
جانے والے کب لوٹے ہیں
ان آہوں میں کیا رکھا ہے
مجھ کو پل پل یاد ہے ماضی
تو نے دوست بھلا رکھا ہے
عشق تیری منطق بھی کیا ہے
درد کا نام دوا رکھا ہے
ہرجائی کے پیار میں ہم نے
دل کو روگ لگا رکھا ہے
اس کو کون وفا کہتا ہے
جس کا نام وفا رکھا ہے
آنکھوں کو خاموشی دی ہے
دل میں درد سوا رکھا ہے
ان ہاتھوں کو مت دیکھیں جی
خون کا نام خدا رکھا ہے
شاید لوٹ آئے وہ سلمیٰ
گھر کو آج سجا رکھا ہے