ہجر میں صبر کیا ہے
خود پہ جبر کیا ہے
تم کو بھی معلوم نہیں
دن کیسے بسر کیا ہے
ایک در پہ بیٹھے ہیں
پھر بھی سفر کیا ہے
جانتے ہو کہ ہجر رتوں کو
کیسے بسر کیا ہے
گرچہ دامن خالی ہے
اس پہ شکر کیا ہے
فقرواستغناء کی دولت
اس پر گزر کیا ہے
عظمٰی نے ہر حالت میں
صبر کیا اور شکر کیا ہے