دور اتنا نہ ہم سے رہا کیجیے
کبھی تو ہمیں بھی ملا کیجیے
ہمیں بھی ہیں کرنی کچھ تم سے باتیں
کوئی شام ہمیں بھی عطا کیجیے
اُداسی کی چادر ہمیں سونپ کر
مسکرا کبھی تو دیا کیجیے
ہم بھی ہیں بندے تمہاری طرح کے
یوں اتنا نہ ہم سے ڈرا کیجیے
ہمارا ہے کیا حال کچھ بھی نہ پوچھیں
بس آپ خوش رہا کیجیے
ہو گیا ہے ہم کو مرضِ محبت
ہمارے لیے اب دعا کیجیے
محبت میں کام اِس کا کوئی نہیں
دور اِس سے اپنی انا کیجیے
نظرِ بد کہیں لگ نہ جائے تمہیں
نہ سج دھج کے باہر پھرا کیجیے