دور بہت دور اک ایسا نگر ہو
چہروں پہ ہو تبسم رقصاں خوشیوں کی سحر ہو
صبح پہلی کرن نکلے خوشیوں کی نوید لئے ہوئے
مسرتوں میں جھومتی ہوئی ہر دوپہر ہو
دل جہاں کسی کے ٹوٹتے نہ ہوں
نکلتی آنکھ سے کوئی نہ آنسوؤں کی لہر ہو
کانٹوں کا کوئی خواب کوئی سپنا نہ ہو
پھولوں کی طرف اٹھتا ہاتھ ہر ہو
جہاں چاند گرہن کا تو کوئی تصور نہیں
چمکتے ستارے کی طرح ہر اک کا مقدر ہو