اک دوست مجھ کو غم میں ڈوبا کر چلا گیا
وہ سارے رشتے پل میں بھلا کر چلا گیا
ہم اس سے سائے کی کیسے رکھیں امید
جو میرے گھر کی چھت گرا کر چلا گیا
وہ راستے کی دھول سمجھتا رہا ہمیں
میری وفا کی خاک اڑا کر چلا گیا
ہم کو تھی امید کہ وہ آئے گا ایک دن
وعدے کی ایک شام میں بہلا کر چلا گیا
آوارہ مزاج ہم کو سمجھتا رہا وہ شخص
جو رستے نئے سفر کے بتا کر چلا گیا
اب اعتبار اس کا ناں آئیگا عمر بھر
وہ جھوٹے خواب ہم کو دکھا کر چلا گیا