دُکھوں میں زیست بسر ہو رہی ہے
روتے روتے آغوش تر ہو رہی ہے
نامِ یار کو بنایا ہے وردِ زباں
اِس لئے ہر سانس مُعطر ہو رہی ہے
خونِ جگر سے کرنی پڑے گی سیراب
میرے دل کی زمیں بنجر ہو رہی ہے
کون ہے اپنا اور کون ہے بیگانہ
دھیرے دھیرے یہ خبر ہو رہی ہے
شبِ فراق میں بہت بہا لیے آنسو
اب اُٹھو میاں امر سحر ہو رہی ہے