دل تو ملتا ہی نہیں ہاتھ ملاتا کیا ہے
دل میں ہیں رنجشیں تو گلے لگاتا کیا ہے
لوگ ضدی ہیں یہ بدلیں گے نہ سوچیں اپنی
اب یہاں پھر نئی دنیا تو بساتا کیا ہے
خود ہی کہتا ہے کہ مشکل ہے ملن اپنا پھر
روز تو خواب نئے مجھ کو دکھاتا کیا ہے
لوگ کہتے ہیں مجھے جب بھی یہاں دیوانہ
اپنے چہرے کو تو دنیا سے چھپاتا کیا ہے
کون کہتا ہے کہ پہچان نہ پاؤں گا تجھے
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجاتا کیا ہے
جس نے اک بار پلٹ کر بھی نہ دیکھا تجھ کو
ان کی خاطر تو اب اشکوں کو بہاتا کیا ہے
کون ہوگا ترے غم میں یاں پریشاں ارشیؔ
یہ بے حس ہیں انہیں دکھ اپنے بتاتا کیا ہے