وہ آۓ بھی ہیں اور چھاۓ بھی ہیں
بھاری اکثریت کی راۓ بھی ہیں
دنیا یہ ہے بس ایسے ہی ہے
دھوپ بھی یہاں اور ساۓ بھی ہیں
کانٹے بھی یہاں راستوں میں پڑے
پھولوں میں ہم تم نہاۓ بھی ہیں
ان سے بنایا ہے اک سائبان
ڈنڈے یہ ہم نے کھاۓ بھی ہیں
اشارہ تو ان کو وہاں سے ملا ہے
سینٹ میں الیکشن کراۓ بھی ہیں
فیصلے کون اُن کے بدلتا رہا ہے
جج اپنے بھی ہیں اور پراۓ بھی ہیں
سیاسی کو سر پر بٹھایا بھی ہے
لوگ ہیں کہ ان کے ستاۓ بھی ہیں
قربانی کا بکرا بھی بن جایں گے
وہ گھوڑا بھی ہیں اور گاۓ بھی ہیں
یہ کیا ہو رہا ہے پس پردہ نعمان
یہ قصّے تو تم نے بتاۓ بھی ہیں