ہر شمع بھی رفتہ رفتہ ہر خواب لُٹا دھیرے دھیرے
شیشہ نہ سہی پتھر بھی نہ تھا دل ٹوٹ گیا دھیرے دھیرے
برسوں میں مراسم بنتے ہیں لمحوں میں بھلا کیا ٹوٹیں گے
تُو مجھ سے بچھڑنا چاہے تو دیوار اُٹھا دھیرے دھیرے
احساس ہوا بربادی کا جب سارے گھر میں دھول اُڑی
آئی ہے میرے انگن پت جھڑ کی ہوا دھیرے دھیرے
دل کیسے جلا کِس وقت جلا ہم کو بھی پتہ آخر میں چلا
پھیلا دھواں چُپکے چُپکے سُلگی ہے چِتا دھیرے دھیرے
وہ ہاتھ پرائے ہو بھی گئے اب دور کا رِشتہ ناطہ ہے
آتی ہے میرے انگن میں خوشبو حِنا دھیرے دھیرے