دیوار و بام نہ کھڑکی نہ کوئی در مرے ساتھ
مزاق کرتا ہے اکثر مرا ہی گھر مرے ساتھ
میں ایک عمر سے اپنی تلاش میں ہو مگن
ہے منزلوں سے بھی آگے کہیں سفر مرے ساتھ
میں اپنے آپ میں سمٹا ہوا سمندر ہوں
تُو ایک دریا سا پھرتا ہے بے خبر مرے ساتھ
تلاش کرتا ہے مجھ کو یہ مجھ میں آخر کون
بھٹکتا پھرتا ہے اک شخص دربدر مرے ساتھ
تُو آئینہ ہے تو خود میں تلاش کر خود کو
کبھی بکھر تو سہی تُو بھی ٹوٹ کر مرے ساتھ
میں تیرے شہر میں مشہور ہوں تو اِس میں بھی
تمہارا ذکر پس ِفن ہے معتبر مرے ساتھ
میں دیکھتا ہوں جو تصویر اپنی سوچتا ہوں
یہ کون آتا ہے پیچھے کھڑا نظر مرے ساتھ
بس اِس امید پہ چڑیا تھی خوش پناہ کے لئے
تمام رات کو جاگے گا اب شجر مے ساتھ
میں اپنے کھیت کے پیڑوں سے تھک چکا ہوں عقیل
کوئی تو بانٹ لے آ کر سبھی ثمر مرے ساتھ