میں یہاں بھی گھوما
میں وہاں بھی گھوما
مجھ کو ہر جگہ تو ھی اک بھایا
تجھ سے محبت اس قدر ہونے لگی
کہ آپنا آپ بھی گوایا
دیکھا جب تیرا بدلتا روپ
سوچا چاہتوں کو زرا قابو کرو
اپنی زبان سے وفا کہ الفاظ زرا خاموش رکھو
تجھ سے گفتگو زرا کم کروں
تجھ کو محسوس زرا کم کرو
کہا دل لگاٶ کہ تجھ کو بھلاٶ
پھر زرا دماغ کو گھما کر دیکھا
رقیبوں کہ ہجرے میں اک رات کو بیتا کر دیکھا
اک پیالہ جام کا لگا کر دیکھا
اس کے سینے سے جا کر بھی دیکھا
آنسو کو آنکھوں سے نکال کر دیکھا
کچھ پل کے لیے تجھ کو بھلا کر بھی دیکھا
پر میری کمبختی دیکھ زرا
تیرے عکس کو میں نے وہاں بھی دیکھا
تیرے بغیر اس دل نے دھڑکنا چھوڑا
زہن کو اپنے الجھاۓ دیکھا
کیسے دور جاٶ
اس زمانے سے تیری چاہت کیسے چھپاٶ
میں نے اک تجھ کو دیکھا ہے
میں کہی کا نہ رہوں
زندگی مجھ سے ناراض سی لگی
موت کو اپنی سدا لگا کر دیکھا
کیاخبر پل میں بکھر جاتی ہیں
قرار اب میں نے نہ خود میں دیکھا
لفظوں سے میں نے اب دوستی کر لی
میں نے ہر کہانی میں تیرا عنوان لکھا
تجھ کو وفا اور خود کو بے وفا لکھا
لکھتے لکھتے دیکھوں نہ میں نے کتنا کمال لکھا
کہی بھی تجھ کو جدا نہ لکھا
اتنا قریب سے سمندر دیکھا
لہروں کو بھی اپنی طرح مچلتے دیکھا
طلوع آفتاب میں خاموشی کو دیکھا
آج بھی تیری تصویر کو
غور سے دیکھا
تجھ کو محبت تھی ۔، نہ تھی َ ہے ۔۔۔۔نہ ہے
میں نے تجھ سے بچھڑ کر بھی
ساری رات بس یہی سوچا
نہ جانے کب نیند نے مجھ کو آغوش میں لیا
کہ۔۔
میں نے خوابوں کوبھی اپنے چکنا چور دیکھا