ٹھہرتا نہیں رہتا ہے درد ذرا ذرا
تھم جائے کہتا ہے درد ذرا ذرا
میں بہل جاؤں اگر لہریں دے ساتھ میرا
بہتا سمندر رہتا ہے گِرد ذرا ذرا
سنتا نہیں آخر وہ جان ہی جائے گا
قضا نہیں ہوتا محبت کا فرض ذرا ذرا
اِک آہ ہے اور تھوڑا تھوڑا سا فتور
خدارا ٹوٹ جائے اَنا کا مرض ذرا ذرا