ذہن میں جو کچھ آتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
نظر میں جو کچھ آتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
کوئی تحریر ہو کوئی تقریر ہو یا کوئی خیال ہو
ہمیں جو کچھ بھاتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
کوئی دلکش حسیں پیکر ، پری وش سا کوئی چہرہ
کہیں جلوہ دکھاتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
کسی گل رخ کسی ماہ نور کا انداز دلربائی
کبھی جو دل لبھاتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
حسیں پرکیف سا موسم سہانا سا کوئی منظر
نگاہوں میں سماتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
کبھی باد بہاری کا روماں پرور کوئی جھونکا
ہمیں جو گدگداتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
کوئی خوشی کا موقعہ ہو یا غم کا پر حزیں لمحہ
ہنساتا ہے رلاتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں
لڑکپن سے ہماری بس یہی عادت رہی عظمٰی
جو دوستی نبھاتا ہے اسے ہم لکھتے جاتے ہیں