ذہن و دل کے آسماں پہ چھایا ہے خمار
نخل تخیلات کا مندا پڑا ہے کاروبار
ساکن ہوئی ہر ارزو ہر خواب جیسے سو گیا
زیست پہ غالب ہوا ہے اک سکوت بے قرار
آنکھوں سے جاری اشک یوں گویا جھڑی برسات کی
اور روح پہ طاری ہے جیسے کوئی ابر سوگوار
اب کسی بھی کام میں لگتا نہیں جی آج کل
میرا دل بے تاب سے رہنے لگا ہے بار بار
عظمٰی عجب احساس ہے جو نیندیں اڑا لے گیا
پھیلا ہے میرے چار سو بےخواب شبوں کا حصار