رات مسافر اپنی بستی چھوڑ چلے
بند وہ سارے پلکوں کے پھر توڑ چلے
آنکھ جہاں سے دل کا عالم کہتی رہی
اشک نگر میں رسواء کر کے چھوڑ چلے
عید کے دن بھی گھر میں جل تھل خوب ہوا
پیار محبت غم سے ایسا جوڑ چلے
رات فلک سے تارے ایسے ٹوٹ گئے
یاد نگر تک رستہ پھر سے موڑ چلے
خواب سحر میں آخر آ کر چیخ پڑا
چاند ستارے سارے تنہا چھوڑ چلے